حالیہ برسوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال کے دوران سعودی عرب کو سیاسی، سفارتی اور انسانی اعتبار سے ایک مؤثر طاقت کے طور پر اُبھارا ہے۔ ان کی قیادت نے شام، فلسطین اور سوڈان جیسے بڑے بحرانوں پر توجہ دیتے ہوئے عرب دنیا کے لیے ایک نیا، متوازن اور عملی راستہ متعین کیا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے عالمی قیادت، خصوصاً امریکہ کے ساتھ ملاقاتوں میں ایسا وژن پیش کیا جو خطے میں استحکام، تنازعات کے منصفانہ حل اور مشترکہ مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ سعودی عرب کی پالیسی مضبوط دلائل، حقیقت پسندی اور علاقائی حالات کے گہرے فہم پر مبنی ہے، جس نے اسے ایک فیصلہ کن عرب ریاست کے طور پر مستحکم کیا ہے۔
شام:
سعودی عرب نے شام کو دوبارہ عرب دنیا کا حصہ بنانے کے لیے اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں دمشق کی عرب لیگ میں واپسی ممکن ہوئی۔ ان کوششوں نے شامی عوام کے لیے نئے استحکام کی امید پیدا کی۔
فلسطین:
فلسطینی مسئلے پر سعودی عرب نے دو ریاستی حل، مستقل جنگ بندی اور یکطرفہ کارروائیوں کے خلاف واضح اور مضبوط موقف اختیار کیا، جس سے یہ مسئلہ دوبارہ عالمی بحث کا مرکز بنا۔
سوڈان:
سوڈان میں بگڑتی صورتحال پر سعودی عرب نے فوری سفارتی اور انسانی اقدامات کیے، فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا اور بحران کے پائیدار حل کے لیے کوششیں تیز کیں۔
مجموعی طور پر سعودی عرب آج خطے میں ایسی طاقت کے طور پر اُبھرا ہے جو سیاسی فیصلوں، امن کی کوششوں اور انسانی خدمت کے میدان میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے، اور یہ سب شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن، قیادت اور انسانی احساس کا نتیجہ ہے۔

