اللّٰہم صل علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آل سیدنا محمد کما تحب و ترضیٰ
لہٗ۔
ربیع الاول کا مہینہ امتِ مسلمہ کے لیے ایمان و عقیدت کی نئی بہار لے کر آتا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی آمد نے کفر و شرک کے اندھیروں کو مٹایا اور انسانیت کو وہ روشنی عطا کی جو قیامت تک انسان کو صراطِ مستقیم دکھاتی رہے گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ” (آل عمران: 164) یعنی یقیناً اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا۔
نبوت سے پہلے کا مکہ ظلم و جہالت کا گہوارہ تھا۔ وہاں بت پرستی عام تھی، عورتوں کے حقوق پامال ہوتے، قبائل معمولی باتوں پر خون بہا دیتے اور کمزور طبقے کو معاشرے میں کچلا جاتا۔ ایسے تاریک ماحول میں نبی اکرم ﷺ کی بعثت انسانیت کے لیے سب سے بڑی رحمت تھی۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلا پیغام یہ دیا کہ “اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ” (الاعراف: 59) یعنی اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
آپ ﷺ نے مکہ کے 13 برس انتہائی صبر و استقامت کے ساتھ گزارے۔ ظلم برداشت کیا، صحابہ کرام پر مظالم ڈھائے گئے لیکن پیغامِ حق سے پیچھے نہ ہٹے۔ پھر ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آپ ﷺ نے ایک ایسا معاشرہ قائم فرمایا جس کی بنیاد عدل، مساوات اور بھائی چارے پر تھی۔ قرآن کہتا ہے: “إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ” (الحجرات: 10) یعنی مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مسجد کو آپ ﷺ نے عبادت، تعلیم اور اجتماعیت کا مرکز بنایا۔ اسی معاشرے نے آنے والے وقت میں دنیا کی تاریخ کا رُخ بدل دیا۔
فتح مکہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ جب آپ ﷺ دشمنوں پر فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے تو انتقام لینے کے بجائے فرمایا: “لا تثريب علیکم الیوم” (یوسف: 92) یعنی آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ یہ عفو و درگزر کی ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے دین کی تکمیل کا اعلان فرمایا: “الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ” (المائدہ: 3)۔ اس اعلان نے واضح کر دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور قیامت تک کے لیے انسانیت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
آپ ﷺ کا اخلاق انسانیت کے لیے سب سے بڑا سبق ہے۔ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: “كان خلقه القرآن” یعنی آپ ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ آپ ﷺ کی سچائی، امانت، رحم دلی اور انکساری نے ہزاروں دلوں کو متاثر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحبَّ إليه من والده وولده والناس أجمعين” (بخاری، مسلم) یعنی تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور سب سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ لیکن یہ محبت صرف زبانی نہیں بلکہ حقیقی اطاعت کے ذریعے ثابت ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے فرمایا: “مَن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ” (النساء: 80) یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اکرم ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ قرآن میں ہے: “وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ” (الاحزاب: 40)۔ اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی نئی شریعت۔ آپ ﷺ کی سیرت ہی رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
آج کے معاشرے میں ہمیں نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم انصاف قائم کریں، کمزوروں اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کریں، تعلیم کو عام کریں، فرقہ واریت اور تعصبات کو ختم کریں، ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور برداشت کے ساتھ رہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل کر کے ہمارا معاشرہ امن، سکون اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
12 ربیع الاول کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی محبت صرف محافل اور نعت خوانی تک محدود نہیں بلکہ اصل محبت ان کی اطاعت اور سنت پر عمل کرنے میں ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو آپ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ یہی ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا واحد راستہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے محبوب رسول ﷺ کی محبت اور اطاعت نصیب فرمائے اور ہمیں آپ ﷺ کی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین۔
وأحسنُ منك لم ترَ قطُّ عيني
وأجملُ منك لم تلدِ النساءُ
خُلقتَ مبرأً من كلِّ عيبٍ
كأنك قد خُلقتَ كما تشاءُ

